Hajj in urdu
حج کی روح
حضرت عائشہ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا.
اللہ کے گھر کا طواف صفہ اور مروہ کے درمیان سعی اور حمبرا ت پر کنکریاں مارنا یہ سارے اعما ل اللہ تعالی کے ذکر کے قیام کے لیے ہی .
بیت اللہ کا طواف صفا مروہ کی سعی رمی حمبرات یہ سب حج کے اعمال و مناسک ہیں۔
حاجی حرم حج کے دوران بیت اللہ کا طواف بھی کرتا ہے۔صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی کرتا ہے۔ حمبرات پر کنکریاں بھی مارتا ہے اور حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے یہ سب اعمال مناسک پورے کرنا ہی ہیں ان کے بغیر حج نہیں ہو سکتا. ۔
لیکن یہ سارے اعمال و ارکان اپنی عظمت و اہمیت کے باوجود بے سود اور بے روح ھیں۔ اگر اصل مقصد مقصود سامنے نہ ہو حج کا اصل مقصود ذکر اللہ کا قیام ہے۔ درحقیقت اللہ کا ذکر ہی سارے اعمال کا اصل جوہر اور حقیقی مقصود ہے۔ اگر یہ مقصود پیش نظر نہ رہے اور محض حج کے ارکان وا عمال ادا کرنے ھی پر نظر ھو تو تو حج کا یہ ظاہری ڈھانچہ ایک ایسا جسم ہوگا جس میں روح نہ ہو ۔
ٹھیک یہی بات قرآن پاک میں بھی نماز کے بارے میں کہی گئی ہے . ۔
اور میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو"
نماز کے قیام کا اصل جوہر اور حقیقی روح بھی اللہ کا ذکر ہی ہے. ذکر اللہ کے بغیر نماز وہ نماز نہیں ہے جو شریعت کو مطلوب ہے . ۔
اور جو مخلص مومنوں کی نماز ہے جو ان کو خدا سے قریب کرتی ہے۔ بے حیائی اور فحا شی سے بچاتی ہے۔
منافقین کی نماز اسی لیے نماز کہلانے کے مستحق نہیں ہے۔ کہ وہ اس جوہر سے خالی ہوتی ہے۔ منافقین کی نماز کے بارے میں کہا گیا ہے۔ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اور ذرا اللہ کا ذکر نہیں کرتے۔ ظاہر ہے جس عبادت میں اللہ کی یاد اور اللہ کی رضا ہی مقصود نہ ہو وہ مخلصانہ عمل کیسے ہو سکتا ہے۔ اور ایسے عمل سے اللہ کو کیا سروکار . ۔
بالکل اسی سے ملتی جلتی بات قربانی کے بارے میں بھی کہی گئی ہے ۔
اللہ کو ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون بلکہ اس کو تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے"
دراصل عمل کو اچھا اور مقبول بنانے والی چیز خدا کی محبت اور خوف ہے. اس جذبے سے جو عمل کیا جائے گا وہی درحقیقت خدا کی نظر میں عمل ہے۔ اس عمل سے خدا کو کیا مطلب جو اس کی خاطر کیا ہی نہیں ہے۔ ایک بے روح جسم ہی ہوگا اگر وہ اصل جوہر اور حقیقی مقصد یعنی ذکر اللہ سے خالی ھو ۔
قربانی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ; ۔
نحر کے دن اولاد آدم کا کوئی بھی عمل اللہ کی قربانی سے زیادہ محبوب نہیں
۔ اور قربانی کیا ہوا جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں اپنے بالوں اور اپنے کھر کے ساتھ لازمی حاضر ہوگا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی قبولیت کے مقام پر جا پہنچتا ہے ۔
پس اللہ کے بندے پوری خوشدلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔
نحر کے معنی ذبح کرنا ۔ذوالحجہ کی دس تاریخ کو جو کہ اہل اسلام قربانیاں کرتے ھیں۔اور ہر طرف ذبح و قر بانی کا چرچا ہوتا ہے۔ اس لیے اس دن کو یوم النحر کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
دس ذولحجہ کے دن مسلمان اور بھی بہت سے نیک کام کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں۔
لیکن اللہ تعالی نے اس خاص دن مسلمانوں کے لیے جو ایک خاص عمل"اہراق الدم" یعنی خون بہانا مقرر کیا ہے. اللہ کو مسلمانوں کا وہی عمل اس دن سب سے زیادہ پسندیدہ ہے.
زید بن ارقم کا بیان ہے کہ ایک بار صحابہ نے اللہ کے رسول سے پوچھا یا رسول اللہ قربانی کی کیا حقیقت و تاریخ ہے
ارشاد فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
قرآن کی روشنی میں اصل واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں انہوں نے اپنا خواب اپنی بیٹے اسماعیل سے بیان کیا۔
ان کی رائے معلوم کی تو تسلیم رضا حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا۔
اے ابا جان آپ کر گزرے ۔ وہ عمل جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے انشاء اللہ آپ مجھے استقامت کا پیکرپاے گے۔
اور وفادار مومن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں ذبح کرنے کے لیے پیشا نی کے بل بچھاڑ دیا۔
پس جب دونوں نے حکم رب کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔
ہم نے ابراہیم کو پکارا اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا بلاشبہ ہم نیکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا۔۔ اور ارشاد فرمایا
اور ہم نے اسماعیل کو ایک عظیم قربانی کے اوپر چھڑا لیا۔
فدائیتكف, سپردگی ,جان نثاری کی یہ مثال اس سے پہلے جن وانس نے اس نے کبھی نہ دیکھی تھی۔
اللہ نے دونوں کیے بے مثال قربانی قبول فرمائی. اور ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں میں منیڈھا قربان کردیا۔۔۔۔
ابراہیم علیہ السلام کی یہی سنت ہے تو ملت اسلام میں رائج ہے۔ ہر مسلمان قربانی کے دن جانور کے گلے پر چھری رکھ کر اسی یادگار کو تازہ کرتا ہے۔
اور زبان حال سے اپنے رب سے کہتا ہے پروردگار! تیرے ہی حکم سے اپنا خون بہانے کے بجائے تیری راہ میں جانور کا خون بہا کر عہد کر رہا ہوں.
کہ جب بھی تیرے دین کو ضرورت ہوگی تیری رضا کے لئے تیرے دین کی خاطر اسی طرح اپنا خون بہانے سے ذرا دریغ نہیں کروں گا.
قربانی کا یہ عمل اسلام کی مکمل تفسیر بھی ہے. اور عملی ثبوت بھی. اللہ نے رہتی زندگی تک امت میں اس سنت کو جاری فرما دیا ہے. اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے دن جانور کا خون بہانے سے زیادہ اللہ کو کوٕی عمل محبوب نہیں۔ پوری دنیا میں آج کے دن ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت پر عمل یہ اعلان اظہار ہے کہ یہ امت زندہ ہے۔۔اس کے جذبات جان نثاری وہ قربانی زندہ ہیں۔
قربانی کی روح کو امت میں تازہ اور بیدار رکھنے کی وجہ سے نہ صرف مردوں کے لیے بلکہ عورتوں کے لئے بھی یہی ہدایت ہے. کہ وہ قربانی کے جانور کے پاس موجود رہ کر اپنے سامنے قربان ہوتا دیکھیں .
اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا
فاطمہ اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو..
جان نثاری کے یہ جذبات سرفروشی کی یہ ولولے ظاہر ہے قربانی کے بغیر صرف صدقہ و خیرات سے پیدا نہیں ہو سکتے اسی لئے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد فرمایا ہے کہ قربانی کے دن درہم و دینار صرف کرنے کا بہترین مصرف قربانی کا وہ جانور ہے جس کو عید کے دن قربان کیا جائے ۔
پھر خدا کی نظر میں اس دن کا یہ محبوب ترین عمل کس قدر مقبول ہے۔
اس کا اندازہ سچے رسول صل وسلم کے ان الفاظ سے کیجئے کہ زمین پر خون کا قطرہ گرنے نہیں پاتا کہ ادھر اللہ کے ہاں وہ شرف قبول حاصل کر لیتا ہے۔
اور قربانی کے جانور کی ایک ایک چیز حد یہ کہ بال اور کھر جو واقعی ضإٕٕع ہو جاتی ہے وہ بھی خدا کی نظر میں قابل قبول اور باعث اجر و صلہ ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وارننگ دی ہے کہ "جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش اور وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے"
ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھی جاتی ہے:
اے اللہ اس قربانی کو ہماری جانب سے قبول فرما جس طرح تو نے اپنے دوست ابراہیم علیہ السلام اپنے حبیب محمد ﷽ کی قربانی قبول فرمائی دونوں پر درود دو سلام ہو۔
Hajj in urdu
حج کی روح
حضرت عائشہ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا.
اللہ کے گھر کا طواف صفہ اور مروہ کے درمیان سعی اور حمبرا ت پر کنکریاں مارنا یہ سارے اعما ل اللہ تعالی کے ذکر کے قیام کے لیے ہی .
بیت اللہ کا طواف صفا مروہ کی سعی رمی حمبرات یہ سب حج کے اعمال و مناسک ہیں۔
حاجی حرم حج کے دوران بیت اللہ کا طواف بھی کرتا ہے۔صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی کرتا ہے۔ حمبرات پر کنکریاں بھی مارتا ہے اور حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے یہ سب اعمال مناسک پورے کرنا ہی ہیں ان کے بغیر حج نہیں ہو سکتا. ۔
لیکن یہ سارے اعمال و ارکان اپنی عظمت و اہمیت کے باوجود بے سود اور بے روح ھیں۔ اگر اصل مقصد مقصود سامنے نہ ہو حج کا اصل مقصود ذکر اللہ کا قیام ہے۔ درحقیقت اللہ کا ذکر ہی سارے اعمال کا اصل جوہر اور حقیقی مقصود ہے۔ اگر یہ مقصود پیش نظر نہ رہے اور محض حج کے ارکان وا عمال ادا کرنے ھی پر نظر ھو تو تو حج کا یہ ظاہری ڈھانچہ ایک ایسا جسم ہوگا جس میں روح نہ ہو ۔
ٹھیک یہی بات قرآن پاک میں بھی نماز کے بارے میں کہی گئی ہے . ۔
اور میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو"
نماز کے قیام کا اصل جوہر اور حقیقی روح بھی اللہ کا ذکر ہی ہے. ذکر اللہ کے بغیر نماز وہ نماز نہیں ہے جو شریعت کو مطلوب ہے . ۔
اور جو مخلص مومنوں کی نماز ہے جو ان کو خدا سے قریب کرتی ہے۔ بے حیائی اور فحا شی سے بچاتی ہے۔
منافقین کی نماز اسی لیے نماز کہلانے کے مستحق نہیں ہے۔ کہ وہ اس جوہر سے خالی ہوتی ہے۔ منافقین کی نماز کے بارے میں کہا گیا ہے۔ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اور ذرا اللہ کا ذکر نہیں کرتے۔ ظاہر ہے جس عبادت میں اللہ کی یاد اور اللہ کی رضا ہی مقصود نہ ہو وہ مخلصانہ عمل کیسے ہو سکتا ہے۔ اور ایسے عمل سے اللہ کو کیا سروکار . ۔
بالکل اسی سے ملتی جلتی بات قربانی کے بارے میں بھی کہی گئی ہے ۔
اللہ کو ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون بلکہ اس کو تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے"
دراصل عمل کو اچھا اور مقبول بنانے والی چیز خدا کی محبت اور خوف ہے. اس جذبے سے جو عمل کیا جائے گا وہی درحقیقت خدا کی نظر میں عمل ہے۔ اس عمل سے خدا کو کیا مطلب جو اس کی خاطر کیا ہی نہیں ہے۔ ایک بے روح جسم ہی ہوگا اگر وہ اصل جوہر اور حقیقی مقصد یعنی ذکر اللہ سے خالی ھو ۔
قربانی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ; ۔
نحر کے دن اولاد آدم کا کوئی بھی عمل اللہ کی قربانی سے زیادہ محبوب نہیں
۔ اور قربانی کیا ہوا جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں اپنے بالوں اور اپنے کھر کے ساتھ لازمی حاضر ہوگا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی قبولیت کے مقام پر جا پہنچتا ہے ۔
پس اللہ کے بندے پوری خوشدلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔
نحر کے معنی ذبح کرنا ۔ذوالحجہ کی دس تاریخ کو جو کہ اہل اسلام قربانیاں کرتے ھیں۔اور ہر طرف ذبح و قر بانی کا چرچا ہوتا ہے۔ اس لیے اس دن کو یوم النحر کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
دس ذولحجہ کے دن مسلمان اور بھی بہت سے نیک کام کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں۔
لیکن اللہ تعالی نے اس خاص دن مسلمانوں کے لیے جو ایک خاص عمل"اہراق الدم" یعنی خون بہانا مقرر کیا ہے. اللہ کو مسلمانوں کا وہی عمل اس دن سب سے زیادہ پسندیدہ ہے.
زید بن ارقم کا بیان ہے کہ ایک بار صحابہ نے اللہ کے رسول سے پوچھا یا رسول اللہ قربانی کی کیا حقیقت و تاریخ ہے
ارشاد فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
قرآن کی روشنی میں اصل واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں انہوں نے اپنا خواب اپنی بیٹے اسماعیل سے بیان کیا۔
ان کی رائے معلوم کی تو تسلیم رضا حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا۔
اے ابا جان آپ کر گزرے ۔ وہ عمل جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے انشاء اللہ آپ مجھے استقامت کا پیکرپاے گے۔
اور وفادار مومن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں ذبح کرنے کے لیے پیشا نی کے بل بچھاڑ دیا۔
پس جب دونوں نے حکم رب کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔
ہم نے ابراہیم کو پکارا اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا بلاشبہ ہم نیکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا۔۔ اور ارشاد فرمایا
اور ہم نے اسماعیل کو ایک عظیم قربانی کے اوپر چھڑا لیا۔
فدائیتكف, سپردگی ,جان نثاری کی یہ مثال اس سے پہلے جن وانس نے اس نے کبھی نہ دیکھی تھی۔
اللہ نے دونوں کیے بے مثال قربانی قبول فرمائی. اور ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں میں منیڈھا قربان کردیا۔۔۔۔
ابراہیم علیہ السلام کی یہی سنت ہے تو ملت اسلام میں رائج ہے۔ ہر مسلمان قربانی کے دن جانور کے گلے پر چھری رکھ کر اسی یادگار کو تازہ کرتا ہے۔
اور زبان حال سے اپنے رب سے کہتا ہے پروردگار! تیرے ہی حکم سے اپنا خون بہانے کے بجائے تیری راہ میں جانور کا خون بہا کر عہد کر رہا ہوں.
کہ جب بھی تیرے دین کو ضرورت ہوگی تیری رضا کے لئے تیرے دین کی خاطر اسی طرح اپنا خون بہانے سے ذرا دریغ نہیں کروں گا.
قربانی کا یہ عمل اسلام کی مکمل تفسیر بھی ہے. اور عملی ثبوت بھی. اللہ نے رہتی زندگی تک امت میں اس سنت کو جاری فرما دیا ہے. اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے دن جانور کا خون بہانے سے زیادہ اللہ کو کوٕی عمل محبوب نہیں۔ پوری دنیا میں آج کے دن ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت پر عمل یہ اعلان اظہار ہے کہ یہ امت زندہ ہے۔۔اس کے جذبات جان نثاری وہ قربانی زندہ ہیں۔
قربانی کی روح کو امت میں تازہ اور بیدار رکھنے کی وجہ سے نہ صرف مردوں کے لیے بلکہ عورتوں کے لئے بھی یہی ہدایت ہے. کہ وہ قربانی کے جانور کے پاس موجود رہ کر اپنے سامنے قربان ہوتا دیکھیں .
اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا
فاطمہ اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو..
جان نثاری کے یہ جذبات سرفروشی کی یہ ولولے ظاہر ہے قربانی کے بغیر صرف صدقہ و خیرات سے پیدا نہیں ہو سکتے اسی لئے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد فرمایا ہے کہ قربانی کے دن درہم و دینار صرف کرنے کا بہترین مصرف قربانی کا وہ جانور ہے جس کو عید کے دن قربان کیا جائے ۔
پھر خدا کی نظر میں اس دن کا یہ محبوب ترین عمل کس قدر مقبول ہے۔
اس کا اندازہ سچے رسول صل وسلم کے ان الفاظ سے کیجئے کہ زمین پر خون کا قطرہ گرنے نہیں پاتا کہ ادھر اللہ کے ہاں وہ شرف قبول حاصل کر لیتا ہے۔
اور قربانی کے جانور کی ایک ایک چیز حد یہ کہ بال اور کھر جو واقعی ضإٕٕع ہو جاتی ہے وہ بھی خدا کی نظر میں قابل قبول اور باعث اجر و صلہ ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وارننگ دی ہے کہ "جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش اور وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے"
ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھی جاتی ہے:
اے اللہ اس قربانی کو ہماری جانب سے قبول فرما جس طرح تو نے اپنے دوست ابراہیم علیہ السلام اپنے حبیب محمد ﷽ کی قربانی قبول فرمائی دونوں پر درود دو سلام ہو۔
0 Comments